پشاور میں بچپن کھو گیا: فرحان اختر کی ایک نظم

Created: JANUARY 22, 2025

tribune


میرے بھائی نے سردی کی سردی کی صبح مجھے جھکا دیا  

اس نے کہا کہ جاگنے کا وقت آگیا ہے

سورج اب سے دو گھنٹے کے بعد نہیں ہوگا

میں نے کہا مجھے سونے کے لئے واپس جانے دو

اس نے مجھے وہاں چھوڑ دیا

سب اچھا اور گرم

اپنے دوست سے ملنے کے لئے بھاگ گیا

ان کی پیٹھ پر بیگ

ان کے مسکراتے چہرے

موڑ کے گرد غائب ہوگیا

روتے ہوئے میں نے بیدار کیا ماں کو میرے کان مروڑتے ہوئے

اس نے کہا اپنے بھائی کی طرح زیادہ ہو

میرے دل میں میری خواہش تھی کہ میں ان کا اکلوتا بیٹا تھا

کبھی دوسرے سے موازنہ نہیں کیا

وہ اس سے زیادہ پیار کرتی تھی

یا تو میں نے سوچا

وہ خصوصی تھا

اس کی خوشی اس کی فخر ہے

اس کا سنہری لڑکا

زندگی کی سخت دھوپ میں اس کا سایہ

یہ میں کیوں نہیں ہوسکتا تھا

یہ میں کیوں نہیں ہوسکتا تھا

ایک سو بار لکھے ہوئے صفحات پر لکھنا

مجھے اسکول جانا یاد ہے

میرے ہاتھ کی تکلیف میری آنکھوں میں آنسو لاتی ہے

کبھی بھی بیوقوف نہیں کھیلنے کا وعدہ کیا

میں کیسے جان سکتا تھا

جیسا کہ میں یہاں بیٹھا تھا

وہ اسمبلی ہال میں

اس سے بے خبر تھا کہ گھڑی دس پر ٹکرا گئی

اور بندوقیں دیوار کے اوپر آگئیں

یہ میں کیوں نہیں ہوسکتا تھا

یہ میں کیوں نہیں ہوسکتا تھا 

نظم پہلے نمودار ہوئی

ہندوستانی زمانے میں

ایکسپریس ٹریبیون ، دسمبر میں شائع ہوا 30 ، 2014۔

Comments(0)

Top Comments

Comment Form